ہر بندۂمومن کے لئے جو اللہ کے پاس ابدی نعمتیں اور سر مدی راحتیں ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کے سامان عیش وعشرت سے دستبردار ہو جانے کو زہد و قناعت کہتے ہیں ۔اور اس دشوار ترین راہ کے مسافر کو زاہد و قانع کہا جاتا ہے۔
رسول اکرم ﷺکی سخا وت وفیاضی
رسول اکرم ﷺکا طریقہ تعلیم
رسول اکرم ﷺ کی نمازیں
رسول اکرم ﷺکے روزے
رسول اکرم ﷺ کا حج اور عمرہ
رسول اکرم ﷺ کا صدقہ و خیرات
رسول اکرم ﷺکے خطوط
رسول اکرم ﷺکے خطبات
رسول اکرم ﷺکی دعائیں
رسول اکرم ﷺکی وصیتیں اور نصیحتیں
آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی شان زہد و قناعت، بلندی کے اس مقام پر فائز تھی جہاں تک آپ کے سوا کسی اور کی رسائی ممکن بھی نہیں ہے۔آپ ﷺکے زہد کی عظمتوں کااندازہ مندرجہ ذیل روایتوں سے بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فر ماتی ہیں کہ:رسول کریم ﷺنے پوری زندگی میں کبھی مسلسل تین دن پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا۔[بخاری،حدیث:۶۴۵۴،مسلم،حدیث: ۲۹۷۰]
دوسری روایت میں آپ فر ماتی ہیں کہ:رحمت عالم ﷺکی آل اطہار نے گندم کی روٹی سے لگاتار تین دن تک شکم سیر ہو کر نہیں کھایا۔
پہلی روایت میں حضور ﷺکا ذکر ہے اور دوسری میں حضور کے اہل بیت کا ذکر ہے ۔یعنی صرف خود ہی بھوکے رہنے کو اپنا معمول نہ بنایا تھا بلکہ حضور کے اہل بیت کی حالت بھی ایسی ہی تھی کہ حضور ﷺ کے اہل بیت نے گندم کی روٹی کبھی شکم سیر ہو کر نہیں کھایا ۔ حضرت صدیقہ ہی بیان فر ماتی ہیں کہ:پورا مہینہ گزر جاتا تھا ہم چولہے میں آگ نہیں جلاتے تھے صرف کھجور اور پانی پر ہماری گزر اوقات ہوتی تھی۔ [بخاری،حدیث:۶۴۵۸۔مسلم،حدیث:۲۹۷۲۔ابن ماجہ،حدیث: ۴۱۴۵]
آپ بیان کرتی ہیں کہ:کئی بار فاقہ کشی کے باعث حضور ﷺکا شکم مبارک کمر سے لگ جاتا ۔میں اس پر ہاتھ پھیرتی ۔میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔عرض کرتی۔اے اللہ کے محبوب میری جان آپ پر قر بان ۔آپ اپنے رب سے اتنا تو مانگتے کہ فاقہ کشی کی نوبت نہ آتی۔آپ ﷺنے ارشاد فر مایا:یا عائشۃ ! مالی وللدنیا۔اے عائشہ!میر ااس دنیا سے کیا تعلق ہے؟۔
آپ ہی ارشاد فر ماتی ہیں کہ:سرورعالم ﷺنے جب اس دنیا سے رحلت فر مائی تو کوئی دینار،درہم ،کوئی بکری اور اونٹ بطور تر کہ نہیں چھوڑا۔
امام بخاری اور دیگر محدثین نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ :ایک روز حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دوپہر کو مسجد کی طرف روانہ ہوئے ۔حضرت عمر کو پتہ چلاتو آپ بھی اسی وقت چلچلاتی دھوپ میں باہر نکل آئے اور مسجد کی طرف چل پڑے ۔انہوں نے جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا :یا ابا بکر ما اخرجک فی ھذہ الساعۃ۔اے ابو بکر ! اس وقت آپ کیوں گھر سے نکل کر مسجد کی طرف آئے ہیں ؟آپ نے جواب دیا بھوک اور فاقہ کی وجہ سے کسی پہلو آرام نہیں آرہاتھا اس لئے مسجد جانے کا ارادہ کیا۔آپ نے عرض کیا :اس ذات کی قسم!جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں بھی اس چلچلاتی دھوپ میں اسی وجہ سے مسجد کی طرف جارہاہوں ۔اسی دوران شاہ دوعالم ﷺبھی تشریف لائے اور اپنے دونوں صحابہ سے پوچھا کہ اس وقت تم دونوں گھر سے نکل کر کدھر جارہے ہو؟دونوں نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ!مسلسل بھوک کی وجہ سے کسی پہلو قرار نہیں آرہا تھا اس لئے خانہء خدا میں جانے کا ارادہ کیا۔حضور سرور عالم ﷺنے ارشاد فر مایا:
انا والذی نفسی بیدہ ما اخرجنی غیرہ۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے!میں بھی اسی وجہ سے گھر سے نکل کر آیا ہوں۔حضور ﷺ اور دونوں حضرات حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے ۔انہیں جب حقیقت حال کا پتہ چلا تو انہوں نے ایک بکری ذبح کیا اور پکا کر حضور ﷺکی خدمت میں پیش کیا ۔سرور عالم ﷺنے اس بھنی ہوئی بکری کا ایک حصہ کاٹا ،اسے روٹی پہ رکھا اور فر مایا:اے ابو ایوب!یہ(میری لخت جگر)فاطمہ کو پہنچادو۔کیو نکہ اس نے بھی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔[ضیاء النبی، جلد ۵؍ص: ۳۸۰]
اللہ اکبر! کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا۔۔اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام۔
اس کے علاوہ حضور ﷺکے زہد وقناعت سے متعلق ایسی ایسی روایتیں ہیں جن کے مطالعہ کے بعد سخت سے سخت جان پر بھی
گر یہ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہیں اور آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہیں اور دل افسردہ ہو جا تا ہے۔مگریہ خیال دل میں لانا بھی گناہ ہے کہ( نعوذ باللہ من ذالک) حضور نبی رحمت ﷺ ایسی فقر وفاقہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اس لئے یہ ساری دقتیں آپ ﷺ کو اپنی زندگی میں برداشت کرنی پڑی۔نہیں،ایسا ہر گز نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ نے جان بوجھ کر قصدا وعمدا دنیا کے عیش وآرام سے علیحد گی اختیا ر فرمایاتاکہ اپنے رب کریم کی بارگا ہ کی نعمتوں اور اس کے قرب سے مالا مال ہوں۔چنانچہ خود آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فر مایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فر مایا کہ:اگر تو چاہے تو میں مکہ کے پہاڑوں کو سونا بنادوں۔میں نے عرض کیا :یا رب العالمین! مجھے اس کی خواہش نہیں ،میری آرزو یہ ہے کہ میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن کھانا کھاؤں،،جس روز میں فاقہ کروں اس دن میں تیری بارگاہ میں عجز ونیاز کا ہدیہ پیش کروں اور تیرے ذکر اور یاد میں مصروف رہوں اور جس روز میں سیر ہو کر کھاؤں اس دن تیرا شکر کروں اور سارا وقت تیری حمد وثنا میں گزاروں۔
اسی طرح ایک روز جبرئیل امین بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فر ماتاہے اور کہتا ہے کہ :کیا آپ اس بات کو پسند فر ماتے ہیں کہ:میں ان پہاڑوں کو سونا بنادوں اور جدھر آپ تشریف لے جائیں وہ آپ کے ساتھ جائیں؟۔
یہ سن کر کچھ دیر کے لئے حضور ﷺنے سر مبارک جھکا لیا اور غور وفکر کرنے لگے کہ اپنے رب کریم کی اس پیشکش کا کیا جواب دیں ۔تھوڑی دیر کے بعد سر مبارک اٹھایا اور فر مایا:اے جبرئیل !دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا اور کوئی گھر نہیں ہے اور یہ اس کا مال ہے جس کے پاس کوئی مال نہ ہو ۔اس دنیا کو وہ آدمی جمع کرتا ہے جو عقل ودانش سے محروم ہو۔
نیز امام بخاری و مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:حضور ﷺنے فر مایا کہ:اللہ تعالی نے زمین کے سارے خزانوں کی کنجیا ں میرے حوالے فرمائی ہیں۔[مسلم،حدیث: ۵۲۳]
ان تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ حضور کا فقر اختیاری تھا اضطراری نہ تھا۔بھلا جس کے قبضہ میں ساری دنیا کے خزانوں کی کنجیاں ہوں اور وہ ذات دوسروں کو اتنا نوازتی ہو کہ زندگی بھر اسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آتی ہو۔بھلا وہ نادار اور مفلس کیو نکر ہو سکتا ہے۔یقینا حضور کا یہ فقر اختیاری تھا اور حضور نے جان بوجھ کر ان تمام دنیاوی عیش وآرام کو اپنے رب کریم کی رضا جوئی کے لئے اپنے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا تھا۔
اس سلسلہ میں قاضی محمد منصور پوری نے اپنی کتاب’ رحمت للعالمین ‘جلد اول کے اخیر میں ایک قصیدہ لکھا ہے اس کا یہ شعر اس الجھن کو دور کرنے کے لئے کافی ہے۔
گزید فقر کہ فرمانروائے ملک ابد۔۔۔۔۔بہ مشت خاک ندارد ہوائے سلطانی۔
یعنی نبی کریم ﷺنے اپنی مرضی سے دولت وثروت کو ٹھکرا دیا اور فقر کو اختیار فر مایا کیونکہ آپ ایسے ملک کے بادشاہ ہیں جو ہمیشہ رہے گا اور جس کی بادشاہی کا یہ عالم ہو وہ ایک مشت خاک پر حکومت کرنے کا خیال کب کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ متعدد ایسے شواہد موجود ہیں کہ صحابہ کرام آپ کے عیش وآرام کے لئے سامان مہیا کر نے کی درخواست کرتے مگر آپ ﷺ اس کی اجازت نہ دیتے اور ایسی پیش کش کبھی قبول نہ فرماتے۔
چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ ایک چٹائی پر سو رہے تھے ۔اس کے ابھرے ہوئے نشانات پہلو مبارک پر نظر آنے لگے ۔جب حضور بیدار ہوئے تو میں اس جگہ کو ملنے لگا جہاں نشانات پڑے ہوئے تھے ۔اسی درمیان میں نے کہا کہ:حضور اگر اجازت دیں تو ہم یہاں آرام دہ بستر بچھا دیں اور حضور اس پر آرام فر مایا کریں ۔سیدنا عمر فاروق کہتے ہیں کہ میری اس درخواست پر حضور ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:میرا اس دنیا سے کیا تعلق ؟میری اور دنیا کی یہ مثال ہے جس طرح کوئی مسافر ہو گر می کے موسم میں دن میں سفر کرے ،دوپہر کا وقت آئے تو قیلولہ کرنے کے لئے کسی درخت کے سائے میں آرام کرے ۔پھر آرام کے بعد اس جگہ کو چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجائے ۔ [(المستدرک للحاکم،کتا ب الرقاق ،حدیث: ۷۸۵۸]
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:ایک روز جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پانی میں شہد ملا کر دیا گیا تو آپ زار وقطار رونے لگے ۔لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فر مایا کہ:مجھے حضور ﷺکے زمانے کا ایک واقعہ یا د آگیا ۔میں خدمت اقدس میں حاضر تھا ،میں نے دیکھا کہ حضور کسی چیز کو دھکیل رہے ہیں لیکن وہ چیز ہمیں نظر نہ آئی ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ!
ہمیں تو کوئی چیز نظر نہیں نہ آئی ۔حضور کس چیز کو دھکیل رہے تھے؟آپ ﷺنے فر مایا: الدنیاتطلعت لی۔کہ دنیا میری طرف جھانک رہی تھی۔میں نے فر مایا۔الیک عنی۔مجھ سے دور ہوجاؤ۔ اس دنیا نے مجھ سے کہا:یارسول اللہ ﷺ!میری مجال نہیں کہ میں حضور کے دامن کو چھو سکوں۔یہ بیان کرنے کے بعد حضرت صدیق اکبر نے ارشاد فر مایا۔پس یہ مشروب(یعنی پانی میں شہد ملایا ہوا)مجھے دیا گیا تو مجھے ڈرلگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا مجھے اپنے دامن میں پھنسالے۔اس لئے مجھ پر گریہ طاری ہوگیا۔ [المستدرک للحاکم،کتاب الرقاق ، حدیث: ۷۸۵۶]
امام بوصیری پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں نازل فر مائے۔حضور ﷺکی شان زہد کے بارے میں کیا ہی پیاری باتیں لکھی ہیں ۔آپ نے کہا: راودتہ الجبال الشم من ذھب۔۔۔۔عن نفسہ فاراھا ایما شمم۔
بڑے اونچے اونچے سونے کے پہاڑوں نے حضور کو للچانا چاہا لیکن حضور سرور عالم ﷺ نے اپنی بے نیازی کی وہ بلند چوٹیاں انہیں دکھائیں کہ وہ اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔
وکیف تدعوا الی الدنیاضرورۃ من۔۔۔۔۔۔۔۔۔لولاہ لم تخرج الدنیا من العدم۔
تم دنیا کی طرف حضور ﷺکے محتاج ہونے کا دعوی کیسے کر سکتے ہو؟حالانکہ حضور کی ذات پاک وہ ذات ہے کہ اگر حضور نہ ہوتے تو دنیا کبھی پردۂ عدم سے نکل کر منصہ شہود پر نہ آتی۔
امام حمیدی نے حبیب بن ثابت سے اور وہ حضرت خثیمہ رضی اللہ عنھم سے روایت کرتے ہیں کہ:کار کنان قضا وقدر نے ایک روز عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ! حضور کی مرضی ہوتو ہم دنیا کے سارے خزانے اور ان کی کنجیاں حضور کی خدمت میں پیش کریں ۔یہ بے انداز نعمتیں نہ آپ سے پہلے کسی کو عطا کیں اور نہ آپ کے بعدکسی کو عطا کیا جائے گا۔اور دنیا میں نعمتوں کی یہ فراوانی آخرت میں آپ کے درجات کو کم کرنے کا باعث نہیں بنیں گی۔اس کے جواب میں حضور ﷺنے فر مایا:ان تمام نعمتوں کو میرے لئے آخرت میں جمع فر مادیں۔[ضیاء النبی،جلد ۵؍ص: ۳۸۳]
جب اللہ کے حبیب ﷺنے دنیاوی نعمتوں اور عیش وآرام سے اس طرح بے رخی کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر مائی۔بڑی خیر وبر کت والا ہے اللہ تعالیٰ جو اگر چاہے تو بنادے آپ کے لئے بہتر اس سے(یعنی ایسے)باغات ،رواں ہوں جن کے نیچے نہریں اور بنادے آپ کے لئے بڑے بڑے محلات۔[سورہ فر قان۔آیت: ۱۰]
حضور ﷺنے جس طر ح خود دنیا سے منہ موڑے رکھا اسی طرح اپنی امت کو بھی دنیا کی محبت سے بچنے کی تا کید فر مائی اور اس کی مذمت بیان فر مائی ۔چنانچہ آپ ﷺنے فر مایا۔ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کوئی کا فر اس سے پانی بھی نہ پی پاتا۔ [المستدرک للحاکم،کتاب الرقاق ،حدیث: ۷۸۴۷]
آج پوری دنیا میں جو برائیاں پھیلی ہوئی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ دنیا کی محبت اور آخرت سے بیزاری ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو اس سے بچائے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی تو فیق عطا فر مائے۔آمین بجاہ سید المر سلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
متعلقہ عناوین